وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے ماہ نومبر میں کسان بھائیوں کے لئے پیکج کا اعلان کیا ہے۔اس پیکج سے کسانوں کواٹھارہ سو ارب کا رعائتی قرضے دئیے جائیں گے۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اس اعلان میں کہا کہ پانچ سال پرانے ٹریکٹروں کو نصف ڈیوٹی شرح پر درآمد کئے جائیں گےاور اس کے علاوہ تین لاکھ ٹیوب ویلز کو سولر پاور سسٹم میں بھی تبدیل کیاجائے گا جس سے کسان بھائیوں کو کافی مالی مدد ملے گی اور اس مہنگائی کے دور میں اپنی پیداوار کو بہتر بنانے کا موقع ملے گا۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف 2022 کسان پیکج میں زمین کے بغیر کسان بھائیوں کو بلاسود قرضوں کی بھی منظوری دے دی۔ڈی اے پی فرٹیلائزر کی قیمت میں پچیس سو روپے فی پیکٹ تک کی کمی گئی مزید یہ کہ بارہ لاکھ پیکٹ بیجوں کے تقسیم کئے جائیں گے۔اور جو کاشتکار بھائی ہیں ان کو تیرہ روپے فی یونٹ بجلی فراہم کرنے کا اعلان ،موجودہ حکومت پاکستان سے کسانوں کو اٹھارہ سو ارب روپے کے قرضے دینے کا بھی کہا ہے اس کے علاوہ حکومت پاکستان نے کسانوں کے لئے ایفیکٹو کسان کا سود معاف کر دیا اور مزید ان کو دس ارب روپے کے قرضے دئے جائیں گے۔زرعی شعبے میں کام کرنے والوں کو دیہاتی علاقوں کے نواجونوں کو پچاس ارب روپے کے قرضے کی منظوری دی جائے گی۔ڈی اے پی کی نئی قیمت گیارہ ہزار دو سو پچاس روپے فی پیکٹ ہے۔
وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کا 2022 کسان پیکج کی
تفصیل
وزیراعظم نے کہا کہ رواں مالی سال کے لئے حکومت کسانوں کو اٹھارہ سو ارب روپے کی قرضے فراہم کرے گی اور یہ کہا گیا ہے کہ جو رقم اب دی جا رہی ہے وہ پچھلے مقابلے میں چار گیا زیادہ ہوں گے۔
موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی توجہ سے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ تمام رقم کسانوں وزیر اعظم نے کہا کہ کمرشل بینک چھوٹے کسانوں اور کاروبارمیں قرض دینے سے گریز کریں۔
سیکنڈ ہینڈ ٹریکٹر کی فراہمی
سیکنڈ ہینڈ ٹریکٹر برآمدی پر اظہار افسوس کیا کہ مقامی طور پر تیار ہونے والے ٹریکٹر کی لاگت میں اضافہ کیا گیا جس سے عام کسانوں کے لئے ٹریکٹروں کی لاگت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے حکومت پاکستان نے اہم قدم اٹھا یا ہے اور کوشش میں ہے کہ ٹریکٹر انڈسٹری کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے فی الحال اسٹیک ہولڈرز نے حکومت کے ساتھ تعاون سے انکار کر دیا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹریکٹر کی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر اعظم نے مزید کیا کہ حکومت پاکستان نے ذمہ داریوں سے ہٹ کر پانچ سال تک کے پرانے سیکنڈ ہینڈ ٹریکٹر درآمد کرنے کا اہم فیصلہ کیا ہے تاکہ اس سے کسانوں کی مقامی طور پر امداد کی جائے جو اس کے اہل نہیں ہے ۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر ٹریکٹر انڈسٹری حکومت پاکستان کا ساتھ تعاون کرے تہ وہ یہ فیصلہ نہ کریں تو مقامی صنعت کو نقصان پہنچنے کی توقع ہے ۔ وزیراعظم نے یہ بی اعلان کیا ہے کہ پانچ سال پرانے سیکنڈ ٹریکٹر درامد کرنے والوں کو ڈیوٹی پر پچاس فیصد چھوٹ دی جائے گی۔تین سال پرانے ٹریکٹروں پر 36 فیصد رعایت دی جائے گی۔
ٹریکٹر انڈسٹری کا حصہ بننے کی منصوبہ بندی کرنے والے نئے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے ہم ٹریکٹر پارٹس کی درآمدی ڈیوٹی پر رعایت دینے کا فیصلہ کیا ۔انہوں نے مزید کہا کہ مکمل طور پرپرزوں پر ڈیوٹی 35 فیصد سے کم کر کے 15 فیصد کر دی گئ ہے۔
یوریا پر سبسڈی
مزید وزیر اعظم پاکستان نے اعلان کیا کہ حکومت پاکستان نے مذاکرات کرکے ڈی اے پی فی بوری پچیس سو روپے کمی پر اتفاق کیا ہے ڈی اے پی بیک اب مارکیٹ میں 11 ہزار دو سو پچاس روپے میں دستیاب ہو گا ۔
اس سے قبل ڈی اے پی تقریباَ چودہ ہزار روپے میں فروخت ہو رہا تھا۔وزیر اعظم نے کہا کہ صوبوں کے تعاون سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کاشتکاروں کو گندم کے کاشتکاروں کو گندم کے بیجوں کی بارہ لاکھ بوریاں مفت فراہم کی جائیں گی اس سے پروگرام کے لئے تیرہ ارب بیس کروڑ روپے بیس کروڈ روپے مختص کئے گئے انہوں نے مزید کیا کہ تیرہ ارب روپے میں سے پچاس فیصد مرکز فراہم کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان نے پانچ ٹن یوریا کا منصوبہ بنایا جس میں سے دو لاکھ ٹن یوریا پہلے ہی پاکستان پہنچ گیا ہے۔انہوں نے وزیر صنعت اور ان کی ٹیم کی تعریف کی ہے انہوں نے اس معاہدے پر بات کی جس پر 100 ڈالر فی ٹن کی بچت کرنے میں مدد ملی۔کیونکہ پہلے یہی یوریا 600 ڈالر فی ٹن کے حساب سے مل رہا تھا۔حکومت پاکستان کی دلچسپی سے مزید کمی کر کے 500 ڈالر فی ٹن کر دیا۔
پاکستان کے زرعی شعبے کو مضبوط بنانے کے لئے حکومت نے یوریا پر سبسڈی کے طور پر تیس ارب روپے مختص کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے تاکہ چھوٹے کاشتکاروں کو سستے نرخوں پر کھاد مل سکے۔وزیر اعظم حکومت پاکستان نے پہلے اوسط پیداوار سے کم پیداوار کی وجہ سے گندم درآمد کی جارہی تھی لیکن سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی کی وجہ سے پاکستان کو اب بھی گندم درآمد کرنے کی ضرورت ہے ۔
وزیر اعظم نے کہا کہ کسانوں کو فوری طور پر ریلیف کے طور پر تیرہ روپے فی یونٹ کی مقررہ قیمت لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔جس کا مطلب ہے کہ تینتالیس ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔
